بدھ 31 دسمبر 2025 - 10:17
سردار مقاومت شہید قاسم سلیمانی

حوزہ/ کسے معلوم تھا کہ ۱۱ مارچ 1957ء کو ایران کے شہر کرمان میں آنکھ کھولنے والا بچہ مستقبل میں مجاہدین کا سردار اور سرخیل بنے گا۔ شہید قاسم سلیمانی جوانی سے ہی ایک متحرک فعال اور دین سے ہمدردی، بلکہ عشق رکھنے والے جوان تھے۔

تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر

حوزہ نیوز ایجنسی|

کسے معلوم تھا کہ ۱۱ مارچ 1957 کو ایران کے شہر کرمان میں آنکھ کھولنے والا بچہ مستقبل میں مجاہدین کا سردار اور سرخیل بنے گا۔ شہید قاسم سلیمانی جوانی سے ہی ایک متحرک فعال اور دین سے ہمدردی، بلکہ عشق رکھنے والے جوان تھے۔ اوائل عمری میں ذاتی کردار سازی کی طرف متوجہ تھے اور خود کو پرہیزگاروں اور باکردار لوگوں میں شامل رکھتے تھے عبادات و ریاضت کے ذریعے روحانی ارتقاء حاصل کرتے رہے اور اپنے خانوادے سے لے کر اپنے قرابت داروں تک اور اپنے محلی دائرے سے لے کر معاشرتی دائرے تک ان کا تعارف ایک نیک مخلص اور باکردار انسان کے طور پر ہوتا رہا۔

شہید سلیمانی اپنی جوانی سے ہی انقلاب اسلامی کی جدوجہد میں عملاً شریک رہے اور ایک فعال و متحرک رکن کے طور پر انقلاب برپا کرنے والوں میں شامل رہے۔ ایرانی بادشاہت اور آمریت کے خلاف علماء اور دیگر قائدین کی تحریک میں قاسم سلیمانی ایک نظریاتی جوان کے طور پر ہراول دستوں میں شامل تھے یہی وجہ ہے کہ جب ۹۷۹۱ء میں انقلاب اسلامی برپا ہوا تو شہید قاسم تب سے ہی انقلاب اسلامی کی حفاظت اور اسلامی جمہوری کے استحکام کے لیے مستعد ہو گئے۔ انقلاب کے اوائل زمانے میں موجودہ رہبر معظم کے قریبی ساتھیوں میں شامل رہے اور مختلف محاذوں میں اپنے کمانڈر کے شانہ بشانہ رہے۔

شہید سلیمانی کی جہادی صلاحیت انہیں منفرد اور ممتاز مقام دلواتی ہے۔ وہ نہ صرف فداکار جنگ جو تھے اور بلاخوف موت میدان میں وارد اور موجود رہتے تھے خود شہید ہونا یا دشمن کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرانا سلیمانی کے لیے ایک دلچسپ مشغلہ تھا۔ ایران عراق جنگ کا محاذ شہید کے لیے پہلا عملیاتی مرحلہ تھا جس میں انہوں نے شجاعت اور جرات کے بے مثال نمونے پیش کئے انہوں نے نہ صرف اس جنگ میں عملاً حصہ لیا، بلکہ اس کی منصوبہ بندی میں بھی شریک رہے۔ اس کے بعد اسلامی جمہوری ایران کے ذریعے عالم اسلام کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے مختلف ممالک میں جاری مزاحمتی تحریکوں کی پشت پناہی کے لیے ایک طویل جہدوجہد شروع کی جو زندگی کے آخری سانس تک جاری رہی۔

لبنان میں حزب اللہ جیسی عالمی سطح پر تسلیم شدہ قوت کے ساتھ ہمکاری اور حزب اللہ کو بام عروج تک پہنچانے کے تمام مراحل میں شہید سلیمانی کا کردار نمایاں ہے۔ یمن میں انصاراللہ جیسی طاقت کی پشتیبانی اور اسے بڑی طاقتوں کے خلاف میدان میں اتارنے کے پس منظر میں بھی شہید سلیمانی کا نام سرفہرست ہے۔ عراق میں مزاحمت کا نشان ہی شہید کے ساتھ مختص ہو چکا ہے۔

داعش جیسی درندہ صفت منفی قوت کو شکست فاش سے دوچار کرنا اور عراق کی سرزمین کو داعش کی غلاظت سے پاک کرنا شہید سلیمانی کا خاصہ ہے۔ اس کے بعد عراق کو عالمی شیطان امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کی سازشوں سے محفوظ رکھنے کے لیے شہید سلیمانی کا کردار بھی روشن نظر آتا ہے۔

شام کی سرزمین پر امریکی و اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور ان دو شیاطین کے مقامی اور غیر مقامی عرب سہولت کاروں و آلہ کاروں کی بیخ کنی کرنا اور شام میں موجود مقامات مقدسہ کو شدت پسند تکفیریوں کی نجاست سے دور کرنا اور شام کو محفوظ بنانا یہ سارے کے سارے کارنامے شہید سلیمانی کے نام ہیں۔ آج عراق‘ شام اور لبنان میں امن و استحکام نظر آتا ہے وہ شہید سلیمانی کا مرہون منت ہے۔

خود اسلامی جمہوری ایران کے اندر داخلی سطح پر جو پریشانیاں اور خطرات پیش آتے رہے اور ایران میں داخلی محاذ کھولے جاتے رہے استعماری ایجنٹوں نے مختلف حربوں کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی حتی کہ دہشت گردی جیسے سفاکانہ حربے بھی استعمال کیے گئے لیکن شہید سلیمانی اور ان کے باوفا ساتھیوں نے ایران کو داخلی سطح پر بہت زیادہ محفوظ کر لیا تھا جس کے بعد عالمی دشمن سے لے کر مقامی ایجنٹوں تک ہر دشمن ناکام ہوا اور سلیمانی کو فتح حاصل ہوئی۔

شہید سلیمانی جس انداز میں آگے بڑھ رہے اور اسلام و ایران دشمنوں کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دے رہے تھے اس کا تقاضا تھا کہ دشمن بھی انہیں اپنی آنکھ کا کانٹا سمجھیں اور اپنے مکروہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھیں۔ کیونکہ قاسم سلیمانی نے امریکہ و اسرائیل اور دنیا بھر کے تکفیریوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔

سلیمانی جہاں ایک عسکری کمانڈر تھا وہاں ایک اعلی منصوبہ ساز مجاہد اور رہنما تھا اس کی منصوبہ سازی کے سامنے عالمی طاقتیں اور تکفیری قوتیں بے دست و پا تھیں۔ ہر ملک میں ناکامی کے بعد انہی قوتوں نے سلیمانی کو راستے سے ہٹانے کے لیے جال بچھانا شروع کئے اور بالاخر وہ اپنے مکروہ عزائم میں بظاہر کامیاب ہوئے اور عراق کی سرزمین پر شہید سلیمانی کو شہید کردیا۔

بظاہر تو سلیمانی شہید ہوگئے اور دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئے لیکن اس عظیم سردار مقاومت کی جدوجہد اور مشن مزید زندہ اور طاقتور ہوگیا۔

آج بھی شہید سلیمانی کی منصوبہ سازی کے مطابق جدوجہد جاری ہے اور قاسم سلیمانی کا نام ہی مزاحمت کاروں کے لیے رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha